قائد اعظم پر مضمون
قائد اعظم 25 دسمبر 1887 کوکراچی میں پیدا ہوئے،آپ کا نام محمد علی رکھا گیا اور آپ کا خاندان جناح کہلاتا تھا۔ چونکہ اس وقت شعیہ سنی وغیرہ پیدا ہونے کی سہولت موجود نہ تھی لہذا وہ مسلمان کہلائے- اگرچہ ان کی وفات کے بعد خاصے لوگوں نے انکو یہ سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک ان کو زیادہ تر مسلمان ہی گنا جاتا ہے-
بچپن اور لڑکپن میں قائد اعظم کو کرکٹ میں اور اسنوکر میں دلچسپی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں کرکٹ کی آڑ میں عام و خاص جوا نہیں کھیلا کرتے تھے اور اسنوکر کی میز گلی محلے کے آوارہ و لفنگے لڑکوں کے ملنے کا ٹھکانہ نہیں ہوا کرتی تھی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد قائداعظم اعلی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے کہا کہ انہوں نے لنکنز ان میں اس لیے داخلہ لیا کہ وہاں عظیم قانون دانوں کی فہرست میں نبی پاک صلى الله عليه وسلم کا نام بھی لکھا تھا۔ لیکن ہمارے دانشوروں نے بڑی محنت سے یہ ثابت کیا کہ لنکنز ان کے در پر حضورصلى الله عليه وسلم کا نام نہیں تحریر تو اس موقع پر یہی کہا جاسکتا ہے کاش اتنی محنت انہوں نے اپنے آپ پر کی ہوتی تو ان کو کم از کم اپنے ٹیکنیکل فالٹ کا پتہ ضرور لگ جاتا۔
قائد اعظم قانون دان بننے کے بعد پاکستان لوٹ آئے اور کراچی کی بجائے بمبئی کو مسکن بنایا اور وہاں پر قانون کی پریکٹس شروع کی- شروع میں جو ان کی باتیں سنتا وہ ان کا مذاق اڑاتا (اس لیے نہیں کہ اس زمانے میں بھی دانشور ہوتے تھے بلکہ ان کے بلند عزائم کی وجہ سے) لیکن ان سب کو منہ کی کھانی پڑی اور ایک روزقائد اعظم برصغیر کے نامور وکلا میں سے ایک قرار پائے اور اپنے بیگانوں نے انکی قابلیت کا اعتراف کیا۔
1910 میں آپ بمبئی سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ نے اپنی سیاست کے لیے کانگریس کو چنا اور آپ کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا کہ تب تک ہندوؤں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انگریز چلے جائیں گے اور ان کے ہاتھ اقتدار آ جائے گا اور وہ تب تک برصغیر کی واحد جماعت نمائندہ جماعت کہلانے کے چکر میں تھے ادھر قائد اعظم بھی تب تک اپنوں بیگانوں سے ناوقف تھے –
1913 میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جو تب تک محض ایک نمائشی جماعت تھی اور چند نوابوں نے مسلمانوں کے حقوق انگریزوں کو بتانے کی خاطر بنائی تھی۔1920 میں آپ نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ آپ کو گاندھی سے اختلاف پیدا ہوگئے تھے کہ کئی لوگ اب تک گاندھی جی کی سیاست نہین سمجھ پائے قائد اعظم تب ہی سمجھ کر ایک طرف ہو گئے تھے۔
1929 میں قائد اعظم نے اپنے مشہور زمانہ چودہ نکات پیش کیے جن کو تاریخ دان پاکستان کی طرف پہلا قدم کہتے ہیں جبکہ طالب علم فیل ہونے کی طرف پہلا قدم کہتے ہیں۔ یہ بھی ان کی خوش قسمتی رہی کہ یہ نکات 1929 میں پیش کیے اب پیش کرتے تو اور نہیں تو کم از کم غداری کا الزام ضرور لگ جانا تھا ان پر کہ اس میں صوبہ توڑنے کی بات کی گئی تھی (سندھ کو بمبئی سےعلیحدہ کرنا) اب تو لوگ کہتے ہیں ملک بھلے ٹوٹ جائے صوبہ نہیں توڑیں گے جبکہ گوروں کی بے عقلی ملاحظہ ہو کہ صوبہ ان کے لیے محض ایک انتظامی اکائی ہے جس کے ساتھ وہ وہی سلوک کرتے ہیں جو ہم اپنے ایک پرانے غبی نوکر جس کا نام بھی صوبہ ہی تھا کہ ساتھ کرتے تھے کہ وہ دن میں دو تین تھپڑ نہ کھاتا توخود بےچین بے چین پھرا کرتا تھا۔ اس چودہ نکات جو انہوں نے نہرو رپورٹ جو ہندوؤں کے عزائم ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا کی مخالفت میں پیش کیے نے آپ کو ملکی سطح پر بڑے لیڈروں میں لا کھڑا کیا اور کانگریس کو پتہ چل گیا ان کا مقابلہ اب ایک ایسے لیڈر سے ہے جو نہ بک سکتا ہے نہ جھک سکتا ہے اور یہ صرف اس کے انتخابی اشتہارات پر لکھنے تک محدود نہیں۔
1930 میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی لیکن 1931 میں انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر فیصلہ کیا کہ وہ لندن میں ہی رہ جائیں کہ اغیار عیار تھے اور اپنے بےوقوف حد تک سادہ اس فیصلے پر ہندوں نے بھی شکر ادا کیا اور ان مسلمانوں نے بھی جن کی قائد کی موجودگی میں ہند میں دال گلتی نہیں دکھ رہی تھی تاہم 1934 میں علامہ اقبال (وہی علامہ اقبال جن کی نظموں کی ہم تشریح میں اور قوال گائیکی میں حتی الوسیع رگیدتے ہیں ) اور چند دیگر راہنماؤں نے ان کو قائل کیا کہ اب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی ذات نہیں جو ان مسلمانوں کا جن کے بچوں نے بڑے ہو کر انہی پر تنقید کرنی ہے کو درست راہ پر گامزن کر سکے۔ علامہ اقبال تو خیر جلد ہی فوت ہوگئے تاہم بقیہ قائل کرنے والے راہنماؤں کے ساتھ ہماری قوم اور لیڈران نے وہ سلوک کیا جو آپ کی ہندستانی سیاست میں واپسی پرہندوؤں نے سوچا تھا۔
آپ واپس آ گئے اور آپ کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا۔ 1935 میں الیکشن ہوئے اور کانگریس واحد جماعت بن کر ابھری اور مسلمانوں کو قائد اعظم کی باتوں کا احساس ہوا کہ ہندو کی ہزاروں سال سے دبی رام راج کی خواہش پر عمل کرنے کا وقت آ گیا اور ہندؤں نے مسلمانوں کا ایسا ناطقہ بند کیا کہ وہ لوگ جو قائداعظم اور ہندو مسلم الگ الگ قوم کی مخالفت کیا کرتے تھے وہ بھی قائد اعظم اور مسلم لیگ کے ہمنوا ہو گئے۔ لیکن کچھ لوگ ابھی بھی تھے جو قائد اعظم کے مخالف تھے اور ان کے خیال میں آئندہ سو ڈیڑھ سو سال میں یہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی اور پھر خلافت بحال ہو گی یہ وہ لوگ تھے جو خود اچھی زندگیاں گزار رہے تھے اور ان کو عام مسلمان کی پریشیانی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے جو سمجھتے تھے باقی لوگ بھی ایسے ہی قابل اور ذہین ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ جہاں جہاں ہندو اکثریت میں تھے وہاں کے مسلمان نام کے بھی مسلمان نہیں بچے تھے- ایسے ہی کچھ لوگ اب پاکستان کی تقسیم پر سوال اٹھاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں پلے بڑھے ہیں یہاں آزاد معاشرے میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار چکے ہیں اور بھارتی مسلمانوں سے مل کر بھی نہیں سبق سیکھے اور مسلم اکثریت کے خواب دیکھتے ہیں جبکہ کشمیر تک میں تو مسلمان وزیر اعلیٰ بھارت سرکار کی مرضی کے خلاف آ نہیں سکتا اور یہ لوگ چلے ہیں مغل حکمرانی بحال کرنے-
1939 میں آخر کار کانگریس خود ہی منہ پھلا کر حکومت دے بیٹھی اور مسلمانوں اور لیگ نے شکر کی نوافل ادا کیں کہ جان چھوٹی وگرنہ انگریز اور ہندو دونوں کا ایک ہی مخالف تھا، ‘مسلمان’۔ 1940 میں قرارداد لاہور پاس کی گئی جس کو ہندو اخبارات نے ہی قرارداد پاکستان مشہور کیا اور خؤد ہی اپنی کشتی ڈبونے کا انٹطام کیا۔ قائد اعظم نے مسلمانوں نے نئی روح بھر دی وہ مسلمان جو فارسی اردو انگریزی، مدرسہ اسکول ، ہندو انگریز میں گو مگو کا شکار تھا ایک پاکستان پر متحد ہو گیا اور قائد اعظم کی قیادت پر انہیں اپنے آپ سے زیادہ اعتبار تھا کہ اپنا پتہ تھا کہ ہم بک سکتے ہیں قائد اعظم پر کسی کو شبہ نہ تھا۔
1946 میں کانگریس کی کئی چالیں، زبان بدلنے اور موقع پرستی کے مواقع کے بعد آخر کار الیکشن ہوئے جس میں مسلم لیگ نے کانگریس جو مسلمانوں اور ہندؤں دونوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تھی کو چھٹی کا دودھ دلا دیا اور انگریزوں کو یہ بات پتہ لگ گئی کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ ہے- مخلوط حکومت بنی لیکن کانگریس کو پتہ لگ گیا کہ مسلم لیگ کم از کم قائد اعظم کے ہوتے ان کے دام میں نہیں انے والی- انہوں نے بادل نخواستہ مسلمانوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا اور ادھر انگریز بھی ایک دم ہی انڈیا سے بور ہوگئے اور وہ انتقال اقتدار جو دو سالوں میں ہونا تھا انہون نے بندر بانٹ کر کے (جس میں بندر بھارت کے حصے اور بانٹ مسلمانوں کے حصے مین آئی) چلتے بنے اور نئے ملک کو کئی تحفے دے گئے جس میں سے چند ایک تو اب تک بھگتائے جارہے ہیں۔
قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا مسلمان ہوا تھا یہ وہ پاکستان تھا جو قائد اعظم نے سوچا تھا جبکہ آج کے پاکستان کے حساب سے پاکستان اس دن وجود میں آیا تھا جس دن برصغیر مین دوسرا مسلمان ہوا تھا کہ یہاں اپنے اسلام سے زیادہ لوگ دوسروں کے اسلام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
قائد اعظم نے خود فرمایا کہ پاکستان اللہ کی مدد سے میں نے اور میری قوم نے بنایا بقیہ لیڈر تو گویا میری جیب میں چند کھوٹے سکے ہیں۔ قائد اعظم خود تو اچھے وقتوں میں اللہ میاں کےپاس چلے گئے اور ہمیں اور ہمارے ملک کو ان کھوٹے سکوں کے حوالے کر گئے جنہوں نے ہماری راہ کھوٹی کی، منزل کھوٹی کی، نیت کھوٹی کی اور ہمیں بھی اپنے جیسا کھوٹا بنا کر چھوڑا۔ اور خود کھوٹے کی تکرار کرتے کرتے کھوٹے کی “ٹ” گھسا کر “ت” تک پہنچ گئے۔
پاکستان بننے کے بعد وقت کم تھا مقابلہ سخت تھا اور مسلمان مال غنیمت لوٹنے پر لگا تھا – ابھی انگریز اور ہندو کے دیے زخم تازہ تھے کہ اللہ کو ہمارا ایک اور امتحان لینا مقصود ہوا اور 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم خالق حقیقی سے جا ملے- بہت سے لوگ اس کے ڈانڈے اس وقت کی حکومت سے جا ملاتے ہیں جو کہ اللہ ہی جانے کہ جن پر الزام تھا وہ خود ایسی موت مرے جس کا کسی اور پر الزام لگا-
قائد اعظم کےبعد اس قوم کو احساس ہوا کہ وہ کتنے اہم شخصیت تھے کہ اس کے بعد ہر کام میں ہماری بد نیتی آڑے آئی اور جہاں سے چلے تھے درحقیقت اس سے بھی پیچھے پہنچ چکے ہیں۔ پہلے قائداعظم کو ہر گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر کو یاد کرتے تھے تاہم امریکہ کے حملوں کے بعد ہمارے لیے وہ بڑا واقعہ ہے (حامیوں اور مخالفوں دونوں کے لیے) گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر ہم دیسی انگریزوں کے لیے کرسمس اہم ہے اس لیے اب بہت سے لوگوں نے ویک اینڈ پر قائد اعظم کے مزار پر جانا شروع کردیا ہے جہاں جس کے پاس آپ کی تصویر والا نوٹ ہے وہ اچھا وقت گزار سکتا ہے- ملک بنانے والے ٹائم بھی اچھا بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔
Essay On Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah
Quaid-e-Azam was born on December 25, 1887 in Karachi. He was named Muhammad Ali and his family was called Jinnah. Since at that time there was no facility to be born as Shia, Sunni, etc., he was called a Muslim – although after his death, some people have tried to provide him with this facility, but still he is mostly considered a Muslim.
In childhood and youth, Quaid-e-Azam was interested in cricket and snooker. The reason was that in those days, ordinary and special gambling was not played under the guise of cricket and the snooker table was not a place for the wandering and scheming boys of the streets to meet.
After primary education, Quaid-e-Azam went to England to pursue higher education, where he said that he took admission in Lincoln’s Inn because the name of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) was also written in the list of great jurists there. But our intellectuals worked hard to prove that Lincoln did not write the name of the Holy Prophet (peace be upon him) on his door, so this is what can be said on this occasion. If only he had worked so hard on himself, he would have at least discovered his technical fault.
After becoming a lawyer, Quaid-e-Azam returned to Pakistan and instead of Karachi, he settled in Bombay and started practicing law there. Initially, everyone who listened to him made fun of him (not because he was an intellectual even in those days, but because of his high ambitions). But they all had to eat their fill and one day Quaid-e-Azam was declared one of the famous lawyers of the subcontinent and his peers acknowledged his ability.
In 1910, he was elected a member of the assembly from Bombay. He chose Congress for his politics and due to his sincere efforts, he was called the ambassador of Hindu-Muslim unity. Till then, the Hindus did not even have the illusion that the British would leave and they would come to power. Till then, they were in the process of being called the only representative party of the subcontinent. Meanwhile, Quaid-e-Azam was also aloof from his foreigners till then.
In 1913, he joined the Muslim League, which was then just a show party and was formed by a few Nawabs to tell the British about the rights of Muslims. In 1920, he resigned from the Congress because he had differences with Gandhi. Many people did not understand Gandhiji’s politics until then. Quaid-e-Azam understood it and then he stepped aside.
In 1929, Quaid-e-Azam presented his famous fourteen points, which historians call the first step towards Pakistan while students call it the first step towards failure. It was also his good fortune that he had presented these points in 1929. If he had presented them now, he would have been accused of treason at least because it talked about breaking the province (separating Sindh from Bombay). Now people say that even if the country breaks up, they will not break the province, whereas the stupidity of the whites can be seen in the fact that the province is just an administrative unit for them, with which they treat the same way we used to treat our old stupid servant whose name was also the province, who used to wander around restlessly if he did not get slapped two or three times a day. The fourteen points that he presented in opposition to the Nehru Report, which was enough to show the intentions of the Hindus, made him one of the great leaders at the national level and the Congress came to know that now they are facing a leader who cannot be sold or bowed down and this is not limited to writing on his election advertisements.
In 1930, he participated in the Round Table Conference, but in 1931, he decided to remain in London, saying that the others were better off and that his foolish and simple decision was appreciated by the Hindus and also by the Muslims, in whose presence India was not seeing any progress. However, in 1934, Allama Iqbal (the same Allama Iqbal whose poems we interpret and whose Qawwal singing we sing) and a few other leaders convinced him that now the future of the Muslims of the Indian subcontinent was in his hands and that there was no one else who could guide the Muslims whose children would grow up to criticize him on the right path. Allama Iqbal died soon after, but our nation and leaders treated the remaining leaders who convinced him in the way that the Hindus thought of his return to Indian politics.
He returned and was made the President of the Muslim League. Elections were held in 1935 and Congress emerged as the only party and Muslims realized the words of Quaid-e-Azam that the time had come to fulfill the Hindu desire for Ram Raj, which had been suppressed for thousands of years, and Hindus silenced the Muslims in such a way that those who opposed Quaid-e-Azam and the separate Hindu-Muslim nation also became allies of Quaid-e-Azam and the Muslim League. But there were still some people who were against Quaid-e-Azam and they thought that in the next hundred and fifty years Muslims would become the majority here and then the Khilafat would be restored. These were the people who were living good lives themselves and they had no sense of the troubles of the common Muslim. These were educated people who believed that the rest of the people were equally capable and intelligent, while the reality was that wherever Hindus were in the majority, there were no Muslims left, even in name. Some of these people now question the partition of Pakistan. These are the people who grew up in Pakistan, have lived their lives here in a free society as they pleased, and have not learned their lesson even from meeting Indian Muslims, and dream of a Muslim majority, while even in Kashmir, a Muslim Chief Minister is the head of the Indian government.
Read Also
Essay on Eid – A Festival of Faith, Happiness, Sacrifice, and Unity
Try Try Again story | Perseverance is the Key to Success
Essay on Cricket Match – Importance, My Experience and Lessons Learned
Corona Pandemic in Pakistan Essay for 2nd year
One thought on “Essay on Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah in English & Urdu”